نسل انسانی کی بقا کیلئے قانونِ فطرت مسلسل مصروف عمل ہے۔ اس کی بنیاد ”محبت“ جیسے پاکیزہ جذبے پر رکھی گئی ہے کہ کسی بھی معاشرے کو برائیوں سے پاک رکھنے کیلئے محبت جیسے پر خلوص جذبے کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔ دین اسلام میں دلوں کو آپس میں جوڑنے اور باہمی ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے ”شادی“ جیسا مقدس بندھن موجود ہے۔ شادی ایک ایسا مذہبی فریضہ ہے جس کے سبب ایک صحیح، مکمل خاندان اور معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ یوں بھی زندگی ایک سفر کی مانند ہے اور میاں بیوی اس سفر کے ایسے ساتھی ہیں کہ جن کا راستہ بھی ایک ہے اور منزل بھی ایک۔ اگر ان کے درمیان مکمل ذہنی ہم آہنگی اور جذبہ محبت موجود ہو تو یہ سفر نہایت آرام و سکون سے کٹ سکتا ہے۔ ویسے بھی جب دو اجنبی روحیں ”نکاح“ جیسے مقدس بندھن میں بندھتی ہیں تو پھر ان کی یک جائی خاندان کی اکائی کو جنم دیتی ہے۔ یہی اکائی آگے جاکر معاشرے کی صورت میں ڈھلتی ہے تو بہترین معاشرے کی تعمیر کیلئے خاندان کی اکائی کی مضبوطی اور خوب صورتی نہایت ضروری ہے۔ یوں سمجھئے، پرسکون معاشرہ، پرسکون ازدواجی زندگی سے مشروط ہے۔
بظاہر تو کوئی بھی لڑکی”نئے گھر“ کی بنیاد اس لیے نہیں رکھتی کہ اسے آباد نہ کیا جائے یا اس کا ماحول خوشگوار نہ ہو، مگر بعض اوقات حالات موافقت نہیں رکھتے اور حالات توقعات کے برخلاف ہو جاتے ہیں۔اس طرح زندگیوں کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔ ایسا ہونا درست نہیں، یہ تو طے ہے کہ مردوں کی نسبت، خواتین کو زیادہ قربانیاں اور خدمات پیش کرنی پڑتی ہیں، لیکن اگر عورت کی قربانی و ایثار سے ایک خوبصورت معاشرہ تخلیق پا جائے تو اس سے بڑھ کر اعزاز کیا ہو گا۔ ذیل میں کچھ چھوٹی چھوٹی باتیں درج کی جارہی ہیں، جو عام سی ہونے کے باوجود بے حد اہم ہیں اور خوش گوار ازدواجی زندگی کی کنجی سمجھی جاتی ہیں۔
(1)دن بھر کا تھکا ہارا شوہر جب شام کو گھر داخل ہو تو اس کا استقبال ایک بھرپور مسکراہٹ اور سلام سے کریں۔ اس طرح وہ ساری تھکن بھول بھال کر خود کو ایک دم تروتازہ محسوس کرے گا۔ کوشش کریں کہ شوہر کی آمد سے قبل صاف ستھرا لباس پہن کر ہلکا پھلکا تیار ہو جائیں اور بچوں کو بھی صاف ستھرا رکھیں۔ اس طرح گھر کے ماحول میں خوشگواریت رچی بسی رہے گی۔
(2)ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اگر شوہر کی آمدنی کم ہو تو اسے اس بات کا طعنہ کبھی نہ دیں، بلکہ ایسے مراحل میں اس کا ساتھ دیں، اس کی دل جوئی کریں۔ ناشکری ہرگز نہ کریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ عورتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”میں نے دوزخ میں سب سے زیادہ عورتوں کو دیکھا ہے۔“ وجہ پوچھنے پر فرمایا، ”شوہروں کی ناشکری کی وجہ سے۔“
(3)اپنے غصے پر قابو رکھیں، کیوں کہ زیادہ تر اختلافات غصے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اگر شوہر غصے میں ہو تو آپ خاموش رہیں، کچھ وقت گزر جانے کے بعد اسے اپنی بات نہایت ہی شیریں لہجے میں سمجھائیں تاکہ وہ آپ کے مو قف کو اچھی طرح سمجھ سکے، اس طرح بات کبھی نہیں بڑھے گی۔ البتہ شوہر کے دل میں آپ کی اہمیت اور عزت مزید بڑھ جائے گی۔
(4)آپ سسرالی رشتے داروں کے متعلق کوئی بات اپنے میکے میں نہ کریں کیوں کہ اس طرح دونوں خاندانوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اپنے سسر، ساس، نند، جیٹھ اور دیور کی دل سے عزت کریں۔ انہیں اسی طرح سمجھیں، جیسے میکے میں والدین اور بہن بھائیوں کو سمجھتی تھیں۔ معمولی باتوں کو دل پر مت لیںبلکہ یہ سوچ کر خود کو ذہنی طور پر مطمئن کریں کہ جب شادی سے پہلے بھی کبھی والدین کسی بات پر ڈانٹ دیتے تھے یا بہن بھائیوں سے کسی بات پر اختلاف ہو جاتا تھا تو ہم جلد ہی ایک دوسرے کو منا لیا کرتے تھے۔ میکے کی طرح سسرال میں بھی اگر یہی سوچ اور رویہ رکھیں گی تو یقینا ذہنی طور پر مطمئن رہیں گی، جس سے آپ کی طبیعت اور مزاج پر بھی بہت اچھا اثر پڑے گا۔
(5)کوشش کیجئے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر کہیں باہر نہ نکلیں۔ کیوں کہ اس طرح ازدواجی تعلقات میں بے اعتمادی کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ بہتر ہے کہ ایک دوسرے کو ہر بات سے آگاہ رکھا جائے تاکہ رشتے میں مضبوطی و اعتماد آئے۔جس طرح بیویوں کیلئے کچھ باتیں اہم ہیں، اسی طرح شوہروں کو بھی چند باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، (6)مثلاًماں، بہن اور بیوی کو ان کے رشتے کے لحاظ سے احترام و عزت دیں۔ کسی ایک فریق کی بات سن کر دوسرے کو بے عزت کبھی نہ کریں، بلکہ پوری بات جان کر انصاف سے کام لیں لیکن ہرحال میں احتیاط کا دامن تھامے رکھیں۔(7)بیوی کی خدمات کو سراہیں۔ اس کے کیے گئے کاموں کی تعریف کریں۔ ہر وقت نقص نہ نکالتے رہیں۔ غلطی ہو جانے پر بھی اس کو آرام سے سمجھائیں کہ ”پیار سے تو سنگ دل کو بھی رام کیا جا سکتا ہے“ تو پھر بیوی تو بیوی ہے، آپ کی مونس و ہمدرد۔ آپ سے محبت کرنے والی، آپ کے نام پر ہزار رشتے چھوڑ کر چلی آنے والی۔
(8)اپنے لہجے کو نرم بنائیں۔ آپ کا شیریں لہجہ بیوی کے دل میں آپ کیلئے محبت پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ ہو سکے تو مسکرا کر بات کریں۔ چہرے پر تناﺅ کی کیفیت مت رکھیں اور خود کو زیادہ تر پرسکون رکھنے کی کوشش کریں(9)بیوی پر بلاوجہ تنقید مت کریں۔ ہر معاملے میں خود کو اس سے بہتر تصور نہ کریں۔ ہو سکتا ہے کچھ باتیں وہ آپ سے بہتر سمجھتی ہو۔ اس سے ہر بات شیئر کریں کیوں کہ بیوی آپ کی صرف شریک حیات ہی نہیں، بہت اچھی دوست بھی ہوتی ہے۔ آپ کے ہر دکھ سکھ کو اپنے دل میںمحسوس کرتی ہے۔ ناسازگار حالات میں بھی وہ جس طرح ساتھ دیتی اور حوصلہ افزائی کرتی ہے، ایسا اور کوئی نہیں کر سکتا۔اس لیے اپنی بیوی کی قدر کیجئے اور اسے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھئے۔()ہفتے میں کم از کم ایک بار بیوی بچوں کو کہیں باہر سیرو تفریح کیلئے ضرور لے کر جائیں۔ اس طرح گھریلو ماحول پر بہت خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ذہنی سکون اور خوشی بھی حاصل ہوتی ہے اور بیوی بچوں سے محبت و دوستی کی فضا بھی قائم ہوتی ہے۔ نیز، ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ایک دوسرے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی جائیں تو عمر گزر جاتی ہے، توقعات پوری نہیں ہوتیں۔ اس لیے زیادہ نہیں، چند ایک چھوٹی چھوٹی باتوں ہی کا خیال رکھ لیا جائے تو چھوٹا سا گھر، ہنستی مسکراتی، جیتی جاگتی جنت کا نمونہ بن جائےگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں